سچ سچ بتاؤ تمہاری صحیح بات کونسی ہے ؟!

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22
یہ آ یات ، قرآن ،نبوت اورپر وردگار کی قدرت کے منکرین کے مقابلہ میں اسی طرح سے گزشتہ استد لالی بحث کوجاری رکھے ہوئے ہیں ۔
یہ ایسی آ یات ہیں ، جو سب کی سب ام کے ساتھ ،جویہاں استفہام کے لیے ہے، شروع ہوئی ہیں،اور گیارہ پے درپے سوالوں کی ایک عمدہ لڑی کو(استفہام انکاری کی صورت میں ) ایک استد لال کے طورپر بیان کرتی ہیں،اور زیادہ واضح تعبیر میں مخالفین کے سامنے فرار کے تمام راستوں کوبند کررہی ہیں ۔اوران مختصر اورپرنفوذ عبارتوں میں گھیر کر انہیں اس طرح سے ایک تنگ جگہ میں لے آ ئی ہیں،کہ انسان اس کی عظمت اورانتظار کے سامنے بے اختیار سرتعظیم جھکاتے ہوئے ، اقرار واعتراف کرتاہے ۔
پہلے مسئلہ خلقت وآفرینش سے شروع کرتے ہوئے کہتاہے : کیابغیر کسی سبب کے پیدا ہوئے ہیں،یاخود ہی اپنے خالق ہیں (أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ شَیْء ٍ أَمْ ہُمُ الْخالِقُون)(١) ۔
یہ کو تاہ اور مختصر عبارت حقیقت میں علت کی معروف دلیل کی طرف اشارہ ہے ،جو فلسفہ وکلام میں خدا کے وجود کے اثبات کے لیے بیان کی جاتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ وہ عالم جس میں ہم رہتے ہیں بلاشک وشبہ حادث ہے (کیونکہ وہ ہمیشہ تغیروتبدیلی کی حالت میں ہے، اور جوچیز تغیر اور دگرگونی کی حالت میں ہو وہ حادث ہوتی ہے ،اور جو چیزحادث ہواس کے لیے محال ہے کہ وہ قدیم وازلی ہو) ۔
اب یہ سوال سامنے آ تاہے کہ اگرعالم حادث ہے تووہ پانچ حالتوں سے خالی نہیں ہے ۔
١۔ وہ بغیر کسی علت وسبب کے وجود میں آیاہے ۔
٢۔وہ خوداپنے وجود کی علت ہے ۔
٣۔عالم کے معلو لات اس کے وجود کی علت ہیں ۔
٤۔یہ جہان ایک ایسی علت کامعلول ہے کہ وہ بھی اپنی نوبت میں ایک دوسری علت کی معلول ہے ، اور غیر متناہی سلسلہ تک معاملہ آگے جاتاہے ۔
٥۔یہ جہان خداوند واجب الوجود کی مخلوق ہے جس کی ہستی اور جو خوداسی کی ذات پاک سے ہے ۔
پہلے چار احتمالوں کا باطل ہونامعلوم ہے ،کیونکہ:
معلول کاوجود علت کے بغیر محال ہے ،ورنہ ہرچیز ہرطرح کے حالات میں وجود میں آسکتی ہے جبکہ ایسانہیں ہے ۔
دوسرااحتمال کہ کوئی چیز خود اپنے آپ کو وجود میں لے آئے ،یہ بھی محال ہے ،کیونکہ اس کامفہوم یہ ہے کہ وہ اپنے وجود سے پہلے موجودہو ، اور یہ اجتماع نقیضین ہے(غورکیجئے ) ۔
اسی طرح تیسرا احتمال،بھی،کہ انسان کی مخلو قات ومعلول اس کی خالق وعلت ہو، واضح طورپر باطل ہے(کیونکہ اس سے دورلازم آتاہے) ۔
اورچوتھا احتمال بھی،یعنی علل واسباب کاتسلسل اوراس کا سلسلہ کاغیر متناہی حد تک کھنچ جانا بھی ناقابل قبول ہے،کیونکہ غیر متناہی معلول ومخلوق آخر مخلوق ہے ،اور وہ ایک خالق کی محتاج ہے، جس نے اس کو ایجاد کیاہے ،کیا غیرمتناہی صفر کوئی عدد بن سکتاہے؟یاغیر متناہی ظلمت سے نور پھوٹ سکتاہے؟یاغیر متناہی فقرو نیاز سے بے نیازی وجود میں آسکتی ہے؟
اس بناپر پانچویں احتمال یعنی واجب الوجود کے خالق ہونے کو قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں رہتا، (پھربھی غورکیجئے ) ۔
اور چونکہ اس برہان کااصلی رکن ، پہلے اور دوسرے احتمال کی نفی ہی ہے ،لہٰذا قرآن نے اسی پرقناعت کی ہے ۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مختصر سی عبارت میں کیا استد لال چھپاہوا ہے ۔
بعدوالی آ یت ، ایک اور سوال کوبیان کرتے ہوئے ،جونچلے مرحلہ کے دعویٰ کے بارے میں ہے، کہتی ہے کیاانہوںنے آسمانوں اور زمین کوپیدا کیاہے (أَمْ خَلَقُوا السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ ) ۔
اگروہ کسی علت کے بغیر وجود میں نہیں آ ئے ،اوروہ خود اپنے وجود کی علت بھی نہیں ہیں توکیا وہ واجب الوجود اور آسمانوں اور زمین کے خالق ہیں،اور اگرعالم ہستی کا مبدء نہیں ہیں، توکیاخدا نے آسمان وزمین کی خلقت کامعاملہ ان کے سپرد کررکھاہے؟اوراس طرح سے وہ ایک ایسی مخلوق ہیں جو خود فر مان خلقت رکھتی ہو؟
مسلّمہ طور سے وہ ہرگز اس قسم کاباطل دعویٰ نہیں کرسکتے لہٰذا اس بات کے آخر میں مزید کہتاہے ،: بلکہ وہ ہٹ دھرم ہیں اوریقین وایمان لاناہی نہیں چاہتے(بَلْ لا یُوقِنُون) ۔
ہاں!وہ ایمان سے فرار کرنے کے لیے کسی بہانہ کی تلاش میں ہیں ۔
اوراگروہ ان امور کے مدعی نہیں ہیں،اورامر خلقت میں وہ کوئی حصہ نہیں رکھتے : کیاتیرے پر وردگار کے خزانے ان کے پاس ہیں(أَمْ عِنْدَہُمْ خَزائِنُ رَبِّکَ)(٢) ۔
تاکہ وہ جسے چاہیں نبوت وعلم ودانش کی نعمت یادوسرے رزق بخشیں ،اور جس سے چاہیں روک لیں ۔
یاپھر یہ بات ہے کہ عالم کی تدبیر کاکام ان کے سپرد کردیاگیاہے،اوروہ ہرچیز پرتسلط واقتدار رکھتے ہیں؟( أَمْ ہُمُ الْمُصَیْطِرُون) ۔
وہ ہرگز بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتے کہ وہ پر وردگار کے خزانہ دار ہیں ،اور نہ ہی وہ اس جہاں کی تدبیر کے معاملہ میںکوئی تسلط رکھتے ہیں ،چونکہ ایک حادثہ ،ایک بیماری یاکسی حقیر سے موذی جانور کے مقابلہ میں ان کاضعف وناتوانی ، اور اسی طرح زندگی کے بالکل ابتدائی وسائل کے لیے ان کی ضرورت واحتیاج ، ان قدرتوں کی ان سے نفی کی بہترین دلیل ہے ،صرف ہوائے نفس جاہ طلبی ،خودخواہی ،تعصب اورہٹ دھرمی ہے جس نے انہیں حقائق سے انکار پر آمادہ کیاہے ۔
مصیطرون ارباب انواع کی طرف اشارہ ہے جوگزشتہ لوگوں کی خرافات اور بے ہودہ باتوں کا ایک حصہ ہے ۔ان کاعقیدہ یہ تھاکہ عالم کی انواع میں سے ہر نوع کا ،چاہے وہ انسان ہوں یاحیوانات یانبا تات وغیرہ انواع، ایک خاص مدبرومربی ہو تاہے ،جسے وہ اس نوع کا رب النوع کہتے تھے ۔ اورخدا کو رب الارباب کاخطاب دیتے تھے ۔یہ شرک آمیز عقیدہ اسلام کی نظرمیں مردود ہے، اورقرآن کی آیات میں تمام جہان کی تدبیر خدا ہی کے ساتھ مخصوص کی گئی ہے ، اوراس کوہم رب العالمینکہہ کرپکارتے ہیں ۔
یہ لفظ اصل میں سطر سے لیاگیا ہے ، جولکھنے کے وقت کلمات کی صفوں کے معنی میں ہے اور مسیطراس شخص کوکہتے ہیں جو کسی کام پرتسلط رکھتا ہواوراسے خط اورلائن دے ، جیساکہ لکھنے والااپنے کلام کی سطورپر تسلط رکھتاہے ،( یہ بات دھیان میں رہے کہ لفظ صاد کے ساتھ بھی لکھا جاتاہے اور سین کے ساتھ بھی ) اور دونوں کاایک ہی معنی ہے اگرچہ قرآن کامشہور رسم الخط صاد کے ساتھ ہے ۔
یہ بات مسلّم ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی نبوت کے منکر اور زمانۂ جاہلیت کے مشرکین اوران کے علاوہ دوسر ے لوگوں میں سے کوئی بھی اوپروالے پانچ امور کامدعی نہیں تھا، اس لیے بعدوالی آ یت میں ایک دوسرے مرحلہ کوپیش کرتے ہوئے کہتا ہے: کیاوہ اس بات کے مدعی ہیں کہ ان پروحی نازل ہوتی ہے ،یاان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس سے وہ آسمان کے اوپر چڑھ جائیں ،اوروحی کے اسرار اس ذ ریعہ سے سن لیں(أَمْ لَہُمْ سُلَّم یَسْتَمِعُونَ فیہِ) ۔
اور چونکہ یہ ممکن تھاکہ وہ اسرار آسمانی سے آگاہی کا دعویٰ کردیں، لہٰذا قرآن بلافاصلہ ان سے دلیل کامطالبہ کرتے ہوئے کہتاہے : جوشخص ان میں سے اس قسم کادعویٰ رکھے اور یہ کہے کہ : میں آسمان پرچڑھ کراسرار الہٰی کوسنتا ہوں تو وہ اپنے اس دعوے کے لیے کوئی واضح دلیل پیش کرے (فَلْیَأْتِ مُسْتَمِعُہُمْ بِسُلْطانٍ مُبین) ۔
یقینا اگروہ اس قسم کا دعویٰ کرتے تو ایک بھی بات نہ کرسکتے ، اوراس مطلب پر ہر گز کوئی دلیل پیش نہ کرتے (٣) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے :کیا یہ نا روانسبت جووہ فرشتوں کی طرف دیتے ہیں کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں قابل قبول ہے؟ کیا خداکے حصہ میں بیٹیاں اور تمہارے حصہ میں بیٹے ہیں (أَمْ لَہُ الْبَناتُ وَ لَکُمُ الْبَنُون) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے باطل عقائد وافکار میں سے ایک یہ تھا کہ وہ بیٹیوں سے شدید نفرت کرتے تھے ، اور اگر انہیں خبرملتی تھی کہ ان کی بیوی نے بیٹی جنی ہے ،توان کاچہرہ غم واندوہ اور شرم وحیا کی شدت سے سیاہ ہوجاتا تھالیکن اس کے باوجود وہ فرشتوں کوخدا کی بیٹیاں کہاکرتے تھے ۔
اگران کاعالم بالاکے ساتھ کوئی تعلق ہے ،اور وہ اسرا روحی سے آشنا ہیں ، تو کیاان کی وحی کانمونہ یہی مضحکہ خیز خرافات اور نگین وشرم آگیں عقائد ہیں؟
یہ بات واضح ہے کہ لڑکی اورلڑ کاانسانی قدروقیمت کے لحاظ سے آپس میں کوئی فرق نہیں رکھتے، اور اوپر والی آ یت کی تعبیر حقیقت میں طرف مقابل کے باطل عقیدے کے برخلاف استد لال کے قبیل سے ہے ۔
قرآن نے متعدد آیات میں اس بیہودہ عقیدہ کی نفی پرتکیہ کیاہے ،اورانہیں اس سلسلہ میں محاکمہ میں لے جاکر رسواکرتاہے( ٤) ۔
پھراس مرحلہ سے ایک منزل اور نیچے اترا ہے ،اورایک دوسری بات کی طرف جوان کوبہانہ جوئی کاوسیلہ ہوسکتی ہے ،اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے،: کیاتوتبلیغ رسالت کے مقابلہ میں ان سے کسی اجر وصلہ کامطالبہ کرتاہے ،جوایک بھاری بوجھ کی طرح ان کے دوش پررکھاہے؟(أَمْ تَسْئَلُہُمْ أَجْراً فَہُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُون) ۔
مغرم (بروزن مکتب) غرم کے مادہ سے ،اس نقصان کے معنی میں ہے جوبلاسبب انسان کے دامنگیر ہو جاتاہے اور غریم طلب گار اورمقروض دونوں پربولا جاتاہے ۔
مثقل اثقالکے مادہ سے، تحمیل، مشقت اوربھاری بوجھ کے معنی میں ہے ،اس بناپرجملہ کا معنی اس طرح ہوگا،: کیاتو تبلیغ رسالت کے لیے ان سے تاوان کامطالبہ کرتا ہے جس کوادا کرنے سے وہ نا تواں ہیں اوراس لیے وہ ایمان نہیں لاتے ؟
یہ معنی قرآن مجید میں نہ صرف پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے بارے میں بلکہ بہت سے پیغمبروںکے بارے میں ہیں، بارہا تکرار سے آئے ہیں کہ انبیاء کی سب سے پہلی باتوں میں سے یہ ہوتی تھی کہ وہ یہ کہتے تھے : ہم تم سے دعوت الہٰی کی تبلیغ کے مقابلہ میں کسی قسم کے اجرو صلہ کا مطالبہ نہیں کرتے تاکہ ان کی بے مثالی بھی ثابت ہواور کسی طمع ولالچ کا نہ ہو نا بھی ، اور بہانہ تلاش کرنے والوں کے لیے کوئی بہانہ بھی با قی نہ رہے ۔
ان سے دوبارہ سوال کرتے ہوئے کہتاہے :کیاغیب کے اسرار ان کے پاس ہیں ۔ اور وہ اس سے لکھ لیتے ہیں (أَمْ عِنْدَہُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُونَ) ۔
یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیغمبر ایک شاعر ہے ،اور ہم اس کی موت اور شیرازئہ زندگی کے بکھر جانے کی انتظار میں ہیں اوراس کی موت سے تمام چیزیں ختم ہو جائیں گی ،اوراس کی دعوت نسیان کے سپرد ہوجائے گی ،(جیساکہ گزشتہ چند آیات میں مشرکین کا یہ قول بیان ہواہے:تتربص بہ ریب المنون۔
انہیں یہ کہاں سے پتہ چل گیا کہ وہ پیغمبر کی وفات کے بعد زندہ رہیں گے ؟ یہ غیب انہیں کس نے بتایا ہے ؟
یہ احتمال بھی موجود ہے کہ قرآن یہ کہتاہے کہ:اگرتم اس بات کے مدعی ہو کہ تمہیں غیب کاعلم ہے اور تم احکام خداوندی کا علم رکھتے ہو ،اور تم قرآن اورمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دین سے بے نیاز ہو، تو یہ ایک عظیم جھوٹ ہے (٥) ۔
اس کے بعدایک دوسرے احتمال کوبیان کرتے ہوئے کہتاہے : اگران امور میں سے کوئی بھی بات نہیں ہے ، تو پھرانہوں نے شیطانی منصوبے بنائے ہیں، تاکہ پیغمبر کودرمیان سے ہٹادیں یااس کے دین سے مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں،انہیں جان لینا چاہیے کہ کفار خدائی منصوبوں کے مقابلے میں مغلوب ہوں گے اورخدا کامنصوبہ ان کے منصوبے سے کہیں بلند ہے (أَمْ یُریدُونَ کَیْداً فَالَّذینَ کَفَرُوا ہُمُ الْمَکیدُون)(٦) ۔
اوپر والی آ یت اس تفسیر کے مطابق سورئہ آل عمران کی آ یت ٥٤ کی مانند ہے جوکہتی ہے: (وَ مَکَرُوا وَ مَکَرَ اللَّہُ وَ اللَّہُ خَیْرُ الْماکِرین) ۔
مفسرین کی ایک جماعت نے یہ احتمال بھی قبول کیاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی سازشیں انجام کار انہی کے برخلاف تمام ہوں گی ، جیساکہ سورئہ فاطر کی آیت ٤٣ میں آیاہے وَ لا یَحیقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ ِلاَّ بِأَہْلِہِ : بُرے منصوبے صرف اپنے بنانے والوں کے ہی دامن گیر ہو تے ہیں۔
دونوں تفسیروں کوجمع کرنے میں بھی کوئی مانع نہیںہے ۔
ہوسکتا ہے کہ یہ آ یت گذشتہ آ یت کے ساتھ ایک دوسراتعلق رکھتی ہو ، او روہ یہ ہے کہ دشمنان اسلام کہتے تھے کہ :ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کے انتظار میں ہیں ، قرآن کہتاہے کہ معاملہ دوحال سے خارج نہیں ہے ، یاتو تمہارادعویٰ یہ ہے کہ وہ تم سے پہلے طبیعی موت سے مرجائے گا ، تواس بات کالازمہ یہ ہے کہ تم اسرار غیب سے آگاہ ہو، اور اگر تمہاری مرد یہ ہے کہ وہ تمہاری سازشوں کے ذ ریعہ ختم ہوجائے گا ، تویہ جان لوکہ خدا کے منصوبوں سے کہیں بالا ہیں اور تمہاری سازشیں خود تمہیں دامنگیر ہوجائیں گی ۔
اوراگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ دار الندوہ میں جمع ہو کرا ورپیغمبر پر کہانت جنون شاعری جیسی تہمتیں لگانے سے ، اس پر کامیاب ہونے میں قادر ہوجا ؤ گے ، تو یہ تمہاراخیال خام ہے،کیونکہ خداکی قدرت تمام قدرتوں سے برتر ہے ۔اوراس نے اس عالمی دعوت کی تبلیغ کے لیے ،اپنے پیغمبر کی سلامتی ،نجات اور کامیابی کی ضمانت کرلی ہے ۔
آخرمیںآخر ی سوال میں ان سے پوچھتا ہے :کیااُن کاخیال یہ ہے کہ وہ کوئی حامی اور مددگار رکھتے ہیں ؟ خدا کے علاوہ ان کاکوئی اور معبود ہے ؟(أَمْ لَہُمْ ِلہ غَیْرُ اللَّہِ ) ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے ،: وہ پاک اور منزہ ہے اس سے جسے اس اس کا شریک قرار دیتے ہیں (سُبْحانَ اللَّہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ ) ۔
اس بناپر کوئی شخص ان کی حمایت پرقادر نہیںہے ۔
اس طرح سے وہ ان سے گیارہ عجیب وغریب مسلسل اور پے در پے سوالات کے ذ ریعہ باز پرس کرتاہے ،اورانہیں مرحلہ بہ مرحلہ ان کے دعووں سے پیچھے ہٹاتا اور نیچے اتارتا چلاجاتاہے، اور اس کے بعد فرار کے تمام راستے ان کے سامنے بند کردیتا ہے ،اورانہیں مکمل طورپر محصور کردیتاہے ۔
قرآن کے استد لالات کتنے دلنشین ہیں، اور اس کے سوالات اور طرز بازپرس کتنی عمدہ ہے،کہ اگرکسی میں حق جوئی اور حق طلبی کی روح موجود ہو ،تووہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کرلے گا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ آخری آیت میں دوسرے معبودوں کی نفی کے لیے کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے اورصرف سُبْحانَ اللَّہِ عَمَّا یُشْرِکُونَکے جملہ پراکتفا کرلیاہے ۔ یہ اس بناپر ہے کہ ان بتوں کی الوہیت کے دعوے کابطلان ،جوپتھراورلکڑی سے بنائے گئے ہیں،یاکوئی بھی دوسری مخلوق ،ان حاجات وضروریات اورکمزوریوں کے ساتھ ، جواُن میں پائی جاتی ہیں ۔
اس سے کہیں زیادہواضح وروشن ہے کہ اس کی تشریح کی جائے اور اس پرگفتگو کی جائے ،علاوہ ازیں دوسری آ یات میں بار ہا اس موضوع کے ابطال کے لیے استد لال ہواہے ۔
١۔ اس آ یت کی تفسیرمیں دوسرے احتمال بھی دیئے گئے ہیں،منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ آ یت کامفاد یہ ہے کہ "" کیا وہ بلامقصداور ہدف کے پیداکئے گئے ہیں، اوروہ کوئی پروگرام اورمسئو لیت نہیں رکھتے""؟اگرچہ اس معنی کومفسرین کی ایک جماعت نے اختیار کیاہے ،لیکن دوسرے جملہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے (أَمْ ہُمُ الْخالِقُون) سے واضح ہوجاتاہے،کہ اس سے مراد وہی ہے جواوپر بیان ہوچکاہے یعنی "" کیاوہ بغیر کسی علت اور سبب کے پیداکئے گئے یاوہ خودا پنی علت آپ ہیں ۔
٢۔"" خزائن"" جمع ہے "" خزینہ"" کی جوکسی چیزکے منبع اورمرکز کے معنی میں ہے ،جس کی حفاظت اور دوسروں کی رسائی سے بچانے کے لیے اُسے وہاں جمع اورذخیرہ کیاگیاہو، قرآن مجید کہتاہے :"" وَ ِنْ مِنْ شَیْء ٍ ِلاَّ عِنْدَنا خَزائِنُہُ وَ ما نُنَزِّلُہُ ِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُوم"" "" ہرچیز کے خزانے ہمارے باس ہیں اور ہم ایک معلوم انداز ے کے مطابق ہی اُسے نازل کرتے ہیں""(حجر۔٢١) ۔
٣۔"" سلم"" (بروزن خرم) سیڑھی کے معنی میں ہے ،اوربعض اوقات ہرقسم کے وسیلہ اور ذ ریعہ کے معنی میں آ یاہے ، اس بارے میں کہ وہ کس چیز کے سننے کے مدعی تھے ،مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، بعض نے اس کی وحی کے ساتھ تفسیرکی ہے ، اور بعض نے ان نسبتوں کے لیے جووہ پیغمبر کودیتے تھے ،جیسے شاعرومجنون ،یاوہ شریک جنہیں وہ خدا کے لیے خیال کرتے تھے ، اوربعض نے پیغمبرسے نبوت کی نفی کے معنی میں تفسیر کی ہے (ان معانی میں جمع کرنابھی بعید نہیں ہے اگر چہ پہلا معنی سب سے زیادہ واضح ہے ) ۔
٤۔اس بارے میں کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ فرشتوں کوخداکی بیٹیاں کیوں سمجھتے تھے ؟ جب کہ بیٹی سے متنفر اور بیزارتھے؟ اورقرآن نے جوعمدہ دلائل ان کے برخلاف قائم کئے ہیں،زیادہ ترجلد ١١ سے آگے (آیہ ٥٧ سورہ نحل کے ذیل میں ) اور جلد ١٩ ص سے آگے سورہ صافات کی آ یت ١٤٩ کے ذیل میں بیان کئے جاچکے ہیں ۔
٥۔مفسرین کی ایک جماعت نے یہاں غیب کی "" لوح محفوظ"" کے معنی میں تفسیر کی ہے ،اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ ان دعووںکی طرف اشارہ ہے جوبعض مشرکین رکھتے تھے اور کہتے تھے ،:اگرکوئی قیامت ہونی ہوگی تو ہمارے لیے خدا کے ہاں بلند مرتبہ ہوگا، لیکن یہ تفاسیر اوپر والی آیات کے مفہوم اوران کے ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط سے کوئی زیادہ مناسبت نہیں رکھتیں ۔
٦۔"" کید"" ( بروزن صید)ایک قسم کی چارہ جوئی کوکہتے ہیں جوبعض اوقات اچھی چارہ جوئیوں کے لیے بھی استعمال ہوتاہے ، لیکن زیادہ تربُرے مقام پراستعمال ہوتاہے ، یہ لفظ مکرو فریب سعی وکوشش اور جنگ کے معنی میں بھی آ یاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma