سب اس کے لیے سجدہ کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 22

گزشتہ آ یات کے بعد جوگزشتہ اقوام کی ستمگری اور طغیان کی وجہ سے ان کی ہلاکت کی بات کرنی تھی ،زیربحث آ یات اپنا روئے سخن مشرکین،کفاراور پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے منکرین کی طرف کرتے ہوئے کہتی ہیں،: یہ پیغمبر(یایہ قرآن) گزشتہ ڈرانے والوں کی طرح ہی ایک ڈ رانے والاہے (ہذا نَذیر مِنَ النُّذُرِ الْأُولی) ۔
یہ جو کہتاہے کہ :پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)(یاقرآن) پہلے انذار کرنے والوں اور ڈرانے والوں کی نوع میں سے ہے اس کامفہوم یہ ہے، کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت ،اوران کی آسمانی کتاب قرآن کوئی نیاموضوع نہیں ہے ،گزشتہ زمانہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں پس یہ تمہارے لیے باعث تعجب کیوں ہے ؟
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ ھٰذا ان اخبار کی طرف اشارہ ہے جوگزشتہ آیات میں پہلی اقوام کی سرگزشت کے سلسلہ میں بیان ہوئی ہیں،کیونکہ وہ بھی اپنی نویت پڑڈرانے والی ہیں،لیکن پہلے والی دونوں تفاسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہیں ۔
اس غرض سے ، کہ مشرکین اورکفار اس خطرے پر،جوانہیں درپیش ہے ، زیادہ توجہ دیں ،مزید کہتاہے:جیسے نزدیک ہوناچاہیئے وہ نزدیک ہوگئی ہے(أَزِفَتِ الْآزِفَةُ)۔
ہاں! قیامت نزدیک ہے،اپنے آپ کوسوال وحساب اور جزا کے لیے تیار کرو ۔
اٰزفة کی تعبیر قیامت کے متعلق اس کے نزدیک ہونے اور وقت کی تنگی کی بناپر ہے ،کیونکہ یہ لفظ کلمہ ازف (بروزن نجف)سے تنگی وقت کے معنی میں لیاگیاہے ،اورطبعاً نزدیک ہونے کے معنی کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے ۔
اس نام کے ساتھ قیامت کانام ،زیربحث آ یت کے علاوہ سورئہ مؤمن کی آ یت ١٨ میں بھی آ یاہے ، اور یہ ایک گویااور بیدار کرنے والی تعبیر ہے ،یہی مفہوم ایک دوسری صورت میں سورئہ قمر کی آ یت١میں بھی بیان ہواہے ،: اقترب الساعة قیامت نزدیک ہوگئی ہے بہرحال دنیاکی عمر کی کوتاہی کی طرف توجہ کرتے ہوئے قیامت کی نزدیکی قابل ادراک ہے ،خصوصاً اس چیز کو دیکھتے ہوئے کہ جوشخص مرتاہے ،اس کی توقیامت صغریٰ برپا ہوجاتی ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے ،:اہم بات یہ ہے کہ اس دن خدا کے علاوہ کوئی شخص ان کی فریاد کونہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی اس کے شدائد کو برطرف کرسکتاہے(لَیْسَ لَہا مِنْ دُونِ اللَّہِ کاشِفَة)(١)۔
کاشفةیہاں شدائد کوبرطرف کرنے والے کے معنی میں ہے ۔
لیکن بعض نے کاشفة کوتاخیر قیامت کے عامل کے معنی میں تفسیرکیاہے اوربعض نے وقوع قیامت کی تاریخ کوکشف کرنے کے معنی میں لیاہے ، لیکن پہلامعنی سب سے زیادہ مناسب ہے ۔
بہرحال حاکم ومالک اورصاحب قدرت اس دن بھی اور (ہمیشہ ) خداہی ہے ، اگرنجات چاہتے ہو تو اس کے لطف کے دامن کی طرف ہاتھ بڑھاؤ اوراگر آرام وسکون کے طالب ہوتواس پرایمان لے آؤ۔
بعد والی آ یت میں مزیدکہتاہے : کیاتم اس بات سے تعجب کرتے ہو (أَ فَمِنْ ہذَا الْحَدیثِ تَعْجَبُون) ۔
یہ جملہ ممکن ہے کہ قیامت اورقبروں سے زندہ ہوکراٹھنے کی طرف اشارہ ہو، جوگزشتہ آ یات میں آ یاہے ،یاقرآن کی طرف اشارہ ہو،(کیونکہ دوسری آ یات میں اس کی حدیث کے لفظ سے تعبیر ہوء ہے (٢)یاوہ باتیں جوگزشتہ اقوام کی ہلاکت کے بارے میں کہی گئی ہیں،یاان سب کی طرف ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے ،:اورتم ہنستے ہواور روتے نہیں ہو (وَ تَضْحَکُونَ وَ لا تَبْکُونَ) ۔
اورہمیشہ غفلت ، بے خبری ،لہوولعب اورگناہ آلود سرگرمیوں میں زندگی بسرکرتے ہو (وَ أَنْتُمْ سامِدُونَ) ۔
حالانکہ یہاں نہ تو ہنسنے کی جگہ ہے اورنہ ہی غفلت اور بے خبررہنے کی جگہ ہے ،بلکہ یہ توہاتھ سے نکلی ہوئی فرصتوں ،ترک شدہ اطاعتوں ، اوران گناہوں پرجوتم سے سرزد ہوئے ہیں، رونے کی جگہ ہے، بیداری اوران امور کی تلافی کی جگہ ہے جو ہاتھ سے نکل گئے ہیں ،خلاصہ یہ ہے کہ توبہ کی اور لطف خداکے سائے کی طرف پٹنے کی جگہ ہے ۔
سامدون سمود کے مادہ سے (بروزن جمود)لہو ولعب،جوش اور کبروغرور سے سراونچا کرنے کے معنی میں ہے ،اوراصل میں اونٹ جب چل رہا ہو اوراپنا سربے اعتنائی سے فضا میں بلند کرتے تو اس فعل کوسمود کہاجاتاہے ۔
یہ مغرور تکبر کرنے والے جانوروں کی طرح خواب وخور میںمشغول ہیں، اور عیش ونوش میں غرق ہیں،اور درد ناک حوادث اوران شدید عذابوں سے ، جوانہیں درپیش ہیں اوران سے دامنگیرہونے ہی والے ہیںاوربے خبرہیں ۔
اس سورہ کی آخری آ یت میں،ان بہت سے مباحث کے بعد جواثبات توحید اورنفی شرک کے سلسلہ میں بیان ہوئے ہیں، کہتاہے: اب جب کہ ایساہے توخدا کے لیے سجدہ کرو اوراس کی پرستش کرو (فَاسْجُدُوا لِلَّہِ وَ اعْبُدُوا) ۔
اگرتم یہ چاہتے ہوکہ حق کی صراط مستقیم پرچلو توصرف اسی کی ذات کوسجدہ کرو، جس کی پاک ذات تک تمام عالم ہستی کے خطوط منتہی ہوتے ہیں ،اوراگرتم یہ چاہتے ہو کہ گزشتہ اقوام کی درد ناک سرنوشت میں جوشرک وکفر وظلم وستم کی بناپر عذاب الہٰی کے چنگل میں گرفتار ہوئی ہیں،گرفتار نہ ہوں،توصرف اسی کی عبادت کرو ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ بہت سی روایات میں یہ نقل ہواہے کہ جس وقت پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اس سورہ کی تلاوت کرتے ہوئے اس آ یت پرپہنچے تو تمام مومنین وکفار جواسے سن رہے تھے سجدہ میں گرپڑے ، ایک روایت کے مطابق جس نے سجدہ نہیں کیاوہ صرف ولید بن مغیرہ تھا(جو شاید سجدہ کرنے کے لیے جھک نہیں سکتا تھا) اس نے مٹھی بھرمٹی اٹھائی اوراس پر پیشانی رکھ دی اوراس طرح سے سجدہ کیا ۔
اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ بت پرست تک بھی سجدے میں گرپڑے ،کیونکہ اس سورہ کے لب ولہجہ کی اثر پذیری ایک طرف سے ،اوراس سورہ کا ہیجان انگیز مضمون دوسری طرف سے،اورمشر کین کے لیے وحشتناک تہدید یں تیسری طرف سے،اورپیغمبر گرامی اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے منہ سے نزول وحی کے پہلے مرحلہ میں ان مبارک آ یات کانکلناچھوتھی طرف سے ، اس قدر گہرائی کے ہوںمؤ ثراور پُر نفوذ تھا کہ جس نے ہر دل پربے اختیاراثر کیا، اورعناد ،ہٹ دھرمی ،تعصب اورخود خواہی کے پردوںکو چاہے وقتی طورپر ہی سہی آنکھوں کے سامنے سے ہٹا دیا، اور تور توحید کادلوں پر سایہ ڈال دیا ۔
اگرہم بھی اس سورہ کو وقت و تائل اورحضور قلب وتوجہ سے تلاوت کریں ،اورخود کوپیغمبر گرامی اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے سامنے نزول قرآن کی فضا میں رکھیں توہم دیکھیں گے کہ اسلام کے مخصوص عقائد سے قطع نظر ہمارے لیے اس کے سواکوئی چارہ نہیں ہے کہ جس وقت آخری آ یت پرپہنچیں توسجدہ میں گرپڑیں ،اورحق تعالیٰ کی بارگاہ میں سرتعظیم جھکادیں ۔
یہ پہلی بار نہیں ہواتھا کہ قرآن نے منکرین کے دلوں میں بھی اثر ڈالا ، اورانہیں بے اختیار اپنی طرف جذب کرلیاجیساکہ ولید بن مغیرہ کی داستان میں آ یاہے کہ جس وقت اس نے سورئہ حم سجدہ (فصلت ) کی آ یات١٣ کوسنا اور جب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اس آ یت کی تلاوت کی : فَِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُکُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَ ثَمُودَ : تووہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوااور لرزنے لگا ،اور بال اس کے بدن پر سیدھے کھڑ ے ہوگئے گھر میں آ یا تواس حالت میں کہ مشرکین نے خیال کیا کہ وہ پورے طور پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے دین میں جذب ہوگیاہے ۔
اس بناپر یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ چونکہ بعض شیطانوں ،یاشیطان صفت انسانوں افرأیتم اللّات والعزّی...کی تلاوت کے وقت ،جوعربوں کے مشہور بتوں کی بات کرتی ہے ،ان بتوں کی تعریف وتوصیف میں زبان کھولی تھی ،اور تلک الغرانیق العلیٰ کہہ دیاتھا، اس وجہ سے مشرکین کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیاتھا،لہٰذا وہ بھی اس بنا پر سجدہ میںگرپڑے ۔
کیونکہ جیساکہ ہم نے ان آ یات کی تفسیرمیں پہلے بیان کیاہے ،ان آ یات میں جوان بتوں کے نام لینے کے بعد آ ئی ہیںان میں ان کی سخت مذمت کی گئی ہے ،اوراس نے کسی قسم کے شک اور تردید اورخطا واشتباہ کی گنجائش کسی کے لیے بھی باقی نہیں چھوڑی ،(مزید وضاحت کے لیے اسی سورہ کی آ یت ١٩ ،٢٠ کی طرف رجوع کریں) ۔
یہ نکتہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اوپر والی آ یت ان آیات مین سے ہے جس کی تلاوت کے وقت سب پرسجدہ واجب ہے :آ یت کالب ولہجہ بھی جواس کے صیغہ امر سے ظاہر ہے ،اورامر وجوب کی دلیل ہے ،اس معنی کی گواہی دیتا ہے ، اور اس طرح سے سورہ الم سجدہ اور حم سجدہ کے بعد یہ تیسراسورہ ہے ، جس میں سجدہ واجب آ یاہے ،اگرچہ بعض روایات کے مطابق ،تاریخ نزول کے لحاظ سے وہ پہلا سورہ ، جس میں سجدہ واجب کی آ یت نازل ہوئی ہے ،یہی سورہ ہے ۔
خداوندا!ہمیشہ معرفت کے انوار کوہمارے دلوں پر سایہ فگن کر، تاکہ ہم تیرے غیر کی پرستش نہ کریں اور تیرے غیر کے سامنے سجدہ نہ کریں ۔
بارا لہٰا!تمام خیرات کی کلیدتیرے ہی دست قدرت میں ہے ،ہمیں اپنے بہترین مواہب وعطا یاسے یعنی اپنی خوشنودی اوررضا سے بہرہ مند کردے ۔
پروردگار ا!ہمیں عبرت بین نگاہ عطافرما، تاکہ ہم گذشتہ ظالم وستمگر اقوام کے حالات سے عبرت سیکھیں اوران کے راستے پرقدم رکھنے سے بچے رہیں ۔
١۔"" لھا"" کی ضمیر "" ازفة "" کی طرف لوٹتی ہے ،اور"" کاشفة "" کامؤ نث ہونا اس بناپر ہے کہ وہ صفت ہے "" نفس"" کی جومحذوف ہے ،بعض نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ "" کاشفة "" کی "" تا""مبالغہ کے لیے ہے "" علامة "" کی طرح ۔
٢۔ سورئہ طور آ یت ٣٤۔

امین یارب العالمین
سورئہ نجم تمام ہوا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma