زکوة کے متفرق مسائل. 1691_1667

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
توضیح المسائل
زکوة فطرہ. 1709_1692زکوة کی نیت.1666_1662

مسئلہ ۱۶۶۷: زکوة کے ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنے چاہئے بلکہ جس وقت زکوة واجب ہو اس کو فقیر یا حاکم شرع کو پہونچادے لیکن اگر کسی معین فقیر کا منتظر ہو یا کسی ایسے فقیر کو دینا چاہتا ہو جو کسی اعتبار سے برتری رکھتا ہو تو انتظار کرسکتا ہے ۔ مگر اس صورت میں احتیاط واجب ہے کہ زکوة کو الگ کرکے رکھ دے۔
مسئلہ ۱۶۶۸: جو شخص مستحق کو زکوة پہونچا سکتا ہو اگر پہونچانے میں کوتاہی کرے اور مال ضائع ہوجائے تو وہ ضامن ہے اس کا عوض اس کو دینا ہوگا اور اگر کوتاہی نہیں کی ہے تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۶۶۹ اگر زکوة کو خود مال سے نکال دے تو باقی میں تصرف کرسکتا ہے اور دوسرے مال سے نکالے تو پورے مال پر تصرف کرسکتا ہے۔
مسئلہ ۱۶۷۰: الگ نکالی ہوئی چیز (یعنی مال کی زکوة) کولے کر اس کی جگہ دوسری چیز نہیں رکھ سکتا۔
مسئلہ ۱۶۷۱: الگ کئے گئے زکوة کے مال سی جو نفع حاصل ہو وہ بھی زکوة کے مال کا جز شمار ہوگا جیسے زکوة میں نکالی ہوئی بھیڑ بچہ دیدے۔
مسئلہ ۱۶۷۲: جس وقت زکوة الگ کررہاہو اگر کوئی مستحق آجائے تو بہتر ہے کہ اسی کو زکوة دیدے۔ البتہ اگر کسی دوسرے کا انتظار کررہا ہو جو اس سے بہتر ہو تو ردک سکتا ہے۔
مسئلہ ۱۶۷۳: جب حاکم شرع مبسوط الید ہو یعنی احکام اسلام کا اجراء کرسکتا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ زکوة اسی کو دی جائے یا پھر اس کی اجازت سے صرف کہاجائے
دوسرے لوگوں کا حاکم شرع کی اجازت کے بغیر تقسیم کرنا محل اشکال ہے۔
مسئلہ ۱۶۷۴: جس زکوة کے مال کو الگ نکال کر رکھ دیا ہے اگر اسی سے تجارت کرے تو صحیح نہیں ہے لیکن اگر حاکم شرع کی اجازت سے ہو تو صحیح ہے اور اس سے جو نفع ہو گا وہ زکوة کا مال ہوگا۔
مسئلہ ۱۶۷۵: زکوة واجب ہونے سے پہلے انسان کسی فقیر کو زکوة کے عنوان سے کچھ نہیں دے سکتا۔ ہاں بطور قرض دے سکتا ہے جب اس پر زکوة واجب ہو تو اپنے قرض میں حساب کرسکتا ہے۔
مسئلہ ۱۶۷۶: جس فقیر کو معلوم ہو کہ کسی شخص پر زکوة واجب نہیں ہوئی وہ اس شخص سے زکوة کے مال سے کچھ نہیں لے سکتا اور اگر لے لے اور اس کے پاس تلف ہوجائے تو ضامن ہے۔ البتہ اگر وہ فقیر اپنے فقر پر باقی رہے تو بعد میں اپنے قرض کو زکوة سے حساب کرسکتا ہے۔
مسئلہ ۱۶۷۷: بھیڑ اور گائے اور ادنٹ کی زکوة آبرومند محتاجوں کو دنیا مستحب ہے اسی طرح زکوة دینے میں اپنے رشتہ داروں کو دوسروں پر مقدم کرنا مستحب ہے اور اہل علم و کمال کو دوسروں پر مقدم کرنا چاہئے جو لوگ اہل سوال نہیں ہیں ان کو اہل سوال پر مقدم کرنا چاہئے۔
مسئلہ ۱۶۷۸: واجب زکو ة کو ظاہر کر کے اور صدقہ مستحبی کو چھپا کر دینا بہتر ہے۔
مسئلہ ۱۶۷۹: جس پر زکوة واجب ہو اور اسکے یہاں مستحق نہ ہو اور بعد میں بھی مستحق پیدا ہونے کی امید نہ ہو تو زکوة کو دوسری جگہ لے جانا چاہئے اور وہاں صرف کرنا چاہئے اور احتیاط واجب سے کہ حمل و نقل کے اخراجات خود ہی برداشت کرے۔ البتہ اگر زکوة تلف ہوجائے تو یہ ضامن نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۶۸۰: اگر خود اس کے یہاں مستحق موجود ہو تب بھی زکوة کو دوسری جگہ لے جاسکتا ہے لیکن ایسی صورت میں سارے اخراجات اسی کے ذمہ ہوں۔ اور زکوة تلف ہوجائے تو بناء بر احتیاط واجب ضامن بھی ہوگا چاہے ایسا حاکم شرع کی اجازت سے کیا ہو۔
مسئلہ ۱۶۸۱: گیہوں، جو و غیرہ کے تو لنے کی اجرت خود اس شخص پر ہے۔
مسئلہ ۱۶۸۲: احتیاط واجب ہے کہ چاندی کے پہلے نصاب سے کم کسی فقیر کو نہ دے (یعنی تقریبا دو مثقال و ۱۵ نخود سی کم نہ دے۔) اور اگر گیہوں و جو و غیرہ کی زکوة دے تب بھی اس کی قیمت بیان کی گئی مقدار سے کم نہ ہو۔
مسئلہ ۱۶۸۳: جس مستحق کو زکوة دی ہے اس سے یہ خواہش کرنا کہ اس کو میرے ہاتھ ہیچ دو مکروہ ہے۔ لیکن اگر مستحق خود ہی زکوة کو رقم سے بدلنا چاہتا ہو تو جس نے اس کو زکوة دیہے اس کو دوسروں پر مقدم کرے۔
مسئلہ ۱۶۸۴: اگر شک ہو کہ واجب شدہ زکوة کو اداکر چکا کہ نہیں تو ادا کرے چاہے یہ شک سالہائے گذشتہ سے متعلق ہو۔
مسئلہ ۱۶۸۵: کسی فقیر کو یہ حق نہیں ہے کہ زکوة کو کم مقدار پر مصالحہ کرے یا کسی چیز کو اس کی قیمت سے زیادہ پر بہ عنوان زکوة قبول کرے یا کسی سے زکوة لے کر اسی کو بخش دے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ زکوة کا مقروض ہو اور فقیر ہوگیا ہو اور زکوة کو ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو وہ اس کے ذمہ رہے گی جیسے دوسرے قرضے اس کے ذمہ رہتے ہیں۔ اس سے لے کر اسی کو بخش دینا محل اشکال ہے۔
مسئلہ ۱۶۸۶: زکو ة سے دینے، علمی کتابوں، قرآن و دعا کی کتابوں اور تمام ان کتابوں کو جو اسلام کی ترقی کا سبب ہوں خرید کر وقف کیا جا سکتاہے۔ خواہ وقف عمومی ہو یا خصوصی بلکہ اپنی اولاد پر اور جو لوگ واجب النفقہ ہیں ان پر بھی وقف کیا جا سکتاہے۔ لیکن زکوة سے جائیداد خرید کر اپنی اولاد کی لئے وقف نہیں کیا جا سکتاہے۔
مسئلہ ۱۶۸۷: فقیر حج و زیارات و غیرہ پر جانے کے لئے زکوة لے سکتا ہے ۔ لیکن اگر اپنے سالانہ اخراجات کے لئے زکوة لے چکاہو تو حج و زیارات و غیرہ کے لئے زکوة کا لینا اشکال رکھتا ہے۔
مسئلہ ۱۶۸۸: اگر مالک کسی کو اپنے مال کی زکوة دینے کے لئے وکیل بنائے اور اس کی ظاہری عبارت کا مفہوم ہو کہ دوسروں کودے تو خواہ وکیل خود بھی مستحق ہو اس میں سے نہیں لے سکتا اور اگر ظاہر عبارت عام ہو تو خود بھی لے سکتا ہے۔
مسئلہ ۱۶۸۹: اگر کوئی بھیڑ ، گائے اونٹ یا سونا چاندی کو بعنوان زکوة بقدر ضرورت لے لے پھر اگر وہ نصاب ہو اور اتفاقا سال گزرجائے جائے تو اس کی بھی زکوة دے۔
مسئلہ ۱۶۹۰: اگر کسی واجب شدہ زکوة کے مال میں دو آدمی شریک ہوں اور ایک اپنے حصہ کے زکوة دیدے اور پھر مال کو تقسیم کرے تو اس کو اپنے حصہ میں تصرف کا حق ہے چاہے دوسرے نے اپنے حصہ کی زکوة نہ دی ہو۔
مسئلہ ۱۶۹۱: اگر کسی کے ذمہ خمس و زکوة کا قرضہ ہے اور وہ مقروض بھیسے اور کفارہ و نذر کا مال بھی اس پرواجب ہو اور وہ سب کو نہ دے سکتا ہو تو ایسی صورت میں جس مال پر خمس یا زکوة واجب ہوئی تھی وہ بعینہ موجود ہو تو پہلے اس مال کا خمس یا زکوة دے اور اگر وہ مال موجود نہ ہو تو احتیاط یہ ہے کہ لوگوں کے حق کو مقدم کرے اور اگر ایسا کوئی شخص مرجائے اور اس کا مال ان تمام چیزوں کے لئے کافی نہ ہو تب بھی اسی ترتیب سے عمل کرے۔

زکوة فطرہ. 1709_1692زکوة کی نیت.1666_1662
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma