ضامن بننے کے احکام.1984_1976

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
توضیح المسائل
کفالت کے احکام. 1991_1985رہن (گروی ) کے احکام. 1975_1964

مسئلہ ۱۹۷۶: کسی مقروض کے قرضے کی ادائیگی کی ضمانت کسی بھی زبان میں لفظی صیغہ جاری کرکے کی جاسکتی ہے۔ مثلا وہ کہے: میں ضامن ہوں کہ فلاں شخص کا قرض ادا کروں گا اور قر ض خواہ بھی قبول کرے تو صحیح ہے۔ اسی طرح قرارداد ضمانت پر دستخط کرکے یا کسی بھی ایسے ذریعے سے جو اس مطلب کو ادا کرسکے انجام دے کر قرض خواہ کو سمجھا دے اور وہ بھی قبول کرلے تو ضمانت کا تحقق ہوجائے گا۔
مسئلہ ۱۹۷۷: ضمانت کے بعد مقروض کا قرض ضامن کی طرف منتقل ہوجاتاہے اور قرض دار بری الذمہ ہوجاتاہے اور اگر مقروض کی فرمائش پر ضمانت کی گئی ہو تو جب ضامن قرض کو ادا کردے تو مقروض سے مطالبہ کرسکتا ہے۔ ضمانت کی ایک دوسری قسم یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اسطرح ضمانت کرے کہ اگر مقروض نے قرضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کرے یا قرض ادانہ کرے تو قرض خواہ اپنا قرض اس سے وصول کرے۔ اس طرح کی بھی ضمانت صحیح ہے۔ بینکوں اور قرضوں میں عموما اسی قم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پہلی قسم کی ضمانت کو نقل ذمہ اور دوسری قسم کو (ضم ذمہ بہ ذمہ) کہا جاتاہے اور دونوں قسمیں صحیح ہیں۔
مسئلہ ۱۹۷۸:۔ ضامن اور قرض خواہ دونوں کو بالغ اور عاقل ہونا ضروری ہے کسی نے ان کو مجبور نہ کیا ہو نیز دونوں لا ابالی اور احمق نہ ہوں۔ جس قرض خواہ کو دیوالیہ ہوجانے کی وجہ سے حاکم شرع نے اس کے اموال میں تصرف سے روک دیا ہو وہ اپنے دیئے ہوئے قرض کو کسی دوسرے کے ذمے منتقل نہیں کرسکتا۔
مسئلہ ۱۹۷۹:۔ اس شخص کی ضمانت کی جا سکتی ہے جو مقروض ہو لہذا اگر کوئی کسی سے قرض لینا چاہتا ہے تو جب تک قرض نہ لے کوئی اسکی ضمانت نہیں کرسکتا۔ ہاں ایک صورت ضمانت کی یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے کہ تم فلاں کاریگر کو ملازم رکھ لو اگر اس نے کوئی خیانت کی یا خرابی کی میں اس کا ضامن ہوں۔ یہ ضمانت بھی معتبر ہے۔
مسئلہ ۱۹۸۰:۔ ضمانت میں قرض خواہ، قرض دار، قرض کی چیز کا تعین ہونا چاہئے لہذا اگر دو آدمیوں کا کسی پر قرضہ ہو اور کوئی کہے کہ میں ان دونوں میں سے کسی ایک کی ضمانت کرتاہوں تو بے کار ہے۔ یا اگر دو آدمی کسی ایک شخص کے مقروض ہوں اور کوئی کہے کہ ان دونوں قرض داروں میں سے کسی ایک گا ضامن ہوں تو باطل ہے کیونکہ اس نے متعین نہیں کیا۔ اسی طرح اگر کسی نے ایک شخص سے سو کلو گیہوں اور سو روپے قرض لئے ہوں اور کوئی کہے کہ ان دونوں قرضوں میں سے ایک قرضہ کا میں ضامن ہوں اور معین نہ کرے تو باطل ہے۔
مسئلہ ۱۹۸۱:۔ اگر قرض خواہ اپنا قرضہ ضامن کو بخش دے تو ضامن مقروض سے وصول نہیں کرسکتا اور اگر ایک مقدار کو بخش دے تو اس مقدار کو مقروض سے نہیں لے سکتا۔
مسئلہ ۱۹۸۲: ضامن قرض خواہ کی مرضی کے بغیر ضمانت ختم نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر ضامن یا قرض خواہ نے قرارداد میں شرط کرلی ہوکہ ہم جب چاہیں ختم کرسکتے ہیں، تب ان کو ختم کرنے کا اختیار ہے۔
مسئلہ ۱۹۸۳: اگر ضامن ضمانت کے وقت قرض ادا کردینے پر قادر ہو (چاہے بعد میں فقیر ہوجائے) تو قرض خواہ اس کی ضمانت کو ختم کرکے پہلے قرض دار سے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر ضمانت کے وقت ضامن فقیر ہو اور قرض خواہ کو یہ بات معلوم ہو پھڑ بھی اس کی ضمانت پر راضی ہو تو بعد میں ختم نہیں کرسکتا۔
ہاں اگر ضامن ضمانت کے وقت فقیر ہو اور قرض خواہ کو اس کا علم نہ ہو اور بعد میں علم ہوجائے تو اس کی ضمانت کو ختم کرسکتاہے۔
مسئلہ ۱۹۸۴: اگر کوئی مقروض کی اجازت کے بغیر اس کی ضمانت کرلے کہ اس کے قرضہ کامیں ضامن ہوں تو مقروض سے کچھ نہیں لے سکتا، ہاں اگر مقروض کی اجازت سے ضامن بری ہوا تو قرض ادا کرنے کے بعد مقروض سے اپنی رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

کفالت کے احکام. 1991_1985رہن (گروی ) کے احکام. 1975_1964
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma