دوسروں کے اسناد اور بیمہ کارڈ سے استفادہ کرنا
دوسروں کے کاغزات سے ان کی اجازت کے ساتھ استعمال کرنے کا کیا حکم ہے جیسے معالجہ کی تخفیف کا کارڈ، پاسپورٹ، شناختی کارڈ وغیرہ، جایز نہ ہونے کی صورت میں کیا اس کی مخالفت پر سزا بھی ہے؟
اگر قوانین و ضوابط کے خلاف ہو تو ایسا کرنا جایز نہیں ہے اور اللہ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔
دفتر کے وقت میں پڑھنے اور مطالعہ کا حکم
دفتر کے اوقات میں فراغت اور بیکار ہونے کی صورت میں اس وقت سے پڑھائی کے لیے استفادہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
اگر اس وقت آپ کے ذمہ کوئی ذمہ داری نہ تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عوام سے ٹیکس لینے کا جواز
ٹیکس کیا ہے؟ اور کیوں لیا جاتا ہے؟ کیا اس کا دینا خمس کے لیے کافی نہیں ہے؟
ٹیکس ملک کے داخلی و خارجی معاملات، حفاظت اور امنیت کے لیے لیا جاتا ہے تا کہ عوام، ملک اور ان کے اموال کی حفاظت کی جا سکے اور ان سے سڑکیں، مدرسے، ہاسپیٹل اور ضرورت کے دوسرے کام کئے جا سکیں اور جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے ٹیکس خمس کی جگہ نہیں لے سکتے، ٹیکس کاموں کے سلسلہ میں خرچ ہونے والے دوسرے پیسوں کی طرح سے ہے۔
حق ارتفاق
الف۔ آیا موضوع حق ارتفاق جسے دنیا کی شہریت کے قانون میں ایک مستقل بحث کے طور پر ذکر اور بیان کیا گیا ہے، کیا اسلامی فقہ میں بھی یہ ایک مستقل بحث کی حیثیت رکھتا ہے؟ب۔ ایرانی مولفین اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ قانون مدنی کی اکثر مدون بحثیں خاص طور پر حق ارتفاق کی بحث فرانس کے قانون مدنی سے ماخوذ ہیں تو کیا فقہ امامیہ ایک بنیادی منبع کے طور پر قانون مدنی اور حق ارتفاق کے تدوین کے لیے کافی نہیں ہے؟
الف۔ حق ارتفاق جس کا ذکر قانون مدنی میں آیا ہے اس عنوان کے ساتھ اسلامی فقہ میں ذکر نہیں ہوا ہے البتہ اس کا محتوا اور نتیجہ عمومات و اطلاقات ادلہ عقود و شروط میں داخل ہو سکتا ہے اور بعض خاص روایات جیسے قاعدہ لا ضرر و لا ضرار کے باب میں سمرۃ بن جندب کی مشہور حدیث سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اسے رسمیت دی ہے، اس لیے کہ سمرہ ایک ایسے کجھور کے درخت کا مالک ہے جو دوسرے کی زمین میں واقع ہے اور اسے اس مرد انصار کی زمین سے گزر کر اپنے درخت تک جانے کی اجازت تھی لیکن چونکہ وہ اس حق سے غلط فایدہ اٹھانا چاہتا تھا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اس بات کی اجازت نہ دی۔ب۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، بنیادی طور پر یہ حق اسلامی ادلہ عامہ اور خاصہ میں ذکر ہوا ہے مگر اس نام اور عنوان کے ساتھ اس کا ذکر نہیں ہے لہذا ممکن ہے کہ قانون مدنی تدوین کرنے والوں نے یہ نام کہیں اور سے اخذ کیا ہو اور اس کے قانون کو اسلامی ادلہ سے اخذ کیا ہو۔
عقد کی صحت کو سرکاری دفتر میں ثبت سے مشروط کرنا
کیا اسلامی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ بعض نہایت اہم مصلحت کی بنیاد پر بعض عقود و ایقاعات (جیسے نکاح و طلاق) کو ملک کے سرکاری دفتر میں رجسٹرڈ یا ثبت کرانے پر مشروط کر دے یا اس کے لیے خاص مراحل طے کرنے کی شرط لگا دے؟
عقد کی صحت کے لیے اس کا دفتر میں ثبت ہونا ضروری نہیں ہے، البتہ مصلحت کو دیکھتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے قانونا سزا تجویز کی جا سکتی ہے۔
ریٹائرمینٹ کی سرکاری حیثیت
ریٹائرمینٹ کی شرعی حیثیت اور دونوں فریق کے حقوق کے بارے میں توضیح دیں؟
ریٹائرمینٹ کے مسائل کو بھی دو طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے:الف: پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسے اصل قرارداد کے ضمن میں ایک نئے عقد کا عنوان دیا جائے، جس میں عقد کی تمام شرطوں کا لحاظ کیا گیا ہو جیسے دونوں فریق بالغ ہوں، عاقل ہوں۔ ریٹارمینٹ کے مسائل کے باب میں جو ابھامات پائے جاتے ہیں جسیے یہ کہ اس عقد میں سفاہت کے حکم نہیں لگ سکتے، اس لیے کہ اس کا عقلی حکم واضح ہے اور یہ بات اس عقد کے صحیح ہونے میں مانع نہیں ہے۔ در حقیقت یہ عقد اور قرارداد بیمہ کے عقد اور قرارداد کی طرح ہے جو ایک مستقل عقد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اس آیہ کرہمہ (اوفوا بالعقود) کے ضمن میں آتا ہے۔ مذکورہ عقد میں ادا کی جانے والی کل رقم کے واضح نہ ہونے اور اس جیسے پیش آنے والے دوسرے مسائل سے اصل عقد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح سے ربا کا مسئلہ نہ ہی عقد بیمہ میں جاری ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریٹائرمینٹ کے عقد میں۔ب۔ یہ مسئلہ اپنی تمام خصوصیات اور قوانین و ضوابط کے ساتھ شرط ضمن عقد کی صورت میں قرارداد میں شامل کیا جائے گا اور اس میں جو ابھامات یا شکوک پائے جاتے ہیں وہ اس کے صحیح ہونے کی راہ میں مانع نہیں بنتے۔ جیسا کی اوپر بیان کیا گیا۔
سرکاری ملازم کو ریکارڈ کے مطابق انعام ملنا
مزدور کسی ٹھیکیدار کے تحت کچھ سال کام کرے اور وہ ٹھیکیدار اس کا ہر طرح سے خیال رکھے اس کے تمام حقوق اور سہولتیں اسے فراہم کرتا ہو مگر کچھ سال کے بعد مزدور اپنی مرضی سے اس کام کو چھوڑنا چاہتا ہو اور وہ ٹھیکیدار سے حساب کرنے کو کہے اور دوبارہ پیسا لے تو کیا اس کے لیے یہ پیسا لینا جایز ہے؟
اگر قانون کے تحت وہ اپنا پرانا حق لینا چاہتا ہو اور دونوں فریق نے اس قانون کو قبول مانتے ہوں تو مزدور سے کیے گیے وعدہ کے مطابق ٹھیکیدار کے لیے اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔
سرکاری نوکری کی عدالتی حیثیت
سرکاری نوکری کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالیں؟ اس بات کے مد نظر کہ ان کی تنخواہیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہیں اور ریٹائرمینٹ کے وقت حکومت انہیں کارکردگی کے حساب سے فنڈ اور پنشن دیتی ہے؟
سرکاری نوکری طاہرا عقد اجارہ کے ضمن میں آتی ہے۔ نوکری کے دوران انجام دی جانے والی خدمات،ان کے اوقات اور تنخواہ کے عوض میں پیدا یونے والے معاملات سے اس عقد اجارہ میں کوئی مشکل پیش نہیں آتیں، انہیں ان دو طریقوں سے سمچھا جا سکتا ہے:الف: وکالت کے طور پر، نوکری کرنے والا خود کو نوکری کے آغاز سے مثلا تیس سال کی مدت، معین تنخواہ اور مقرر اوقات میں سرکار کو اپنی خدمات پیش کرتا ہے اور یہ عقد اجارہ (تحریر شدہ شکل میں یا عملی طور پر) دونوں فریق میں ہو جاتا ہے۔ پھر وہ حکومت اور سرکار کو اپنی مطلقہ وکالت دے دیتا ہے جس کے مطابق اگر حکومت چاہے تو مثلا پچیس سال یا اس سے کم و بیش مدت کے بعد اس قرارداد اور سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور وہ حکومت کو اس بات کی وکالت بھی دے دیتا ہے کہ وہ کام کے اوقات، تنخواہ کے تعین اور دوسری سہولتوں میں اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق رد و بدل کر سکتی ہے اور جدید قرارداد اور اگریمینٹ نئے اصول و ضوابط اور ضرورتوں کے تحت تنظیم کر سکتے ہیں۔ حکومت ان معاملات میں جس طرح سے مالک کی حیثیت رکھتی ہے اسے طرح سے وکالت بھی رکھتی ہے۔ب۔ اس عرصہ میں پیش آنے والی تبدیلیوں کو شرط ضمن عقد کے تحت بھی حل کیا جا سکتا ہے، اس معنا میں کہ پہلی قرارداد میں یہ شرط ہوگی کی حکومت جب چاہے گی (قانون کے مطابق) اس سمجھوتے کو ختم کر سکتی ہے اور اسے ریٹائر یا مستعفی کر سکتی ہے۔ یا ایسا ہو سکتا ہے کہ نوکری کرنے والا یہ شرط رکھے کہ اسے تنخواہ کے علاوہ مزید پیسا دیا جائے جو قانون کے مطابق ہو۔واضح رہے کہ یہ شراءط بہت واضح نہیں یوتے مگر اس حد تک ضرور واضح ہوتے ہیں کہ ان پر عمل ہو سکے۔
ولی فقیہ کی ولایت کی حدود
دور حاضر میں مہم ترین گفتگو، مطلقہ ولایت فقیہ یا غیر مطلقہ ولایت فقیہ کے بارے میں چل رہی ہے ، جنابعالی نے بھی اپنی فقہی کتابوں میں اس بحث کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا ہے لفظ مطلقہ کے معنی معلوم ہونا چاہیے، بندہٴ ناچیز اس لفظ کے لئے ایک معنی عرض کررہا ہے البتہ اس بات سے قطع نظر کہ آپ ان معنی کو قبول کرتے ہیں یا نہیں (اگرچہ قبول نہ کرنے کی صورت میں بہت زیادہ شکرگزار ہونگابلکہ میری خواہش ہوگی کہ اس کی دلیل بیان فرمائیں تاکہ مزید راہنمائی ہوسکے) کیا آپ اس معنی میں ولایت فقیہ کو قبول کرتے ہیں؟آپ کو معلوم ہے کہ یہ بحث امام خمینی رحمة الله علیہ کے ذریعہ اس طرح مفصل پیش کی گئی لیکن اس سلسلہ میں مرحوم امام خمینیۺ نے بھی جو کتاب تحریر کی ہے اس میں ہمیں ”ولایت مطلقہ“ کا عنوان نظر نہیں آتا ہے، وہ چیز جو وہ مرحوم فرماتے تھے یہ تھی کہ ولی فقیہ وسعت کے اعتبار سے وہی معصومین علیہم السلام کے اختیارات کا مالک ہے، لہٰذا یہ معنی (ولایت مطلقہ، ان مرحوم کے بعد یا ان ہی کے زمانے میں لیکن دوسروں کے ذریعہ، پیش ہوئے بہرحال اس سلسلہ میں تین نظریہ پیش کئے جاسکتے ہیں:۱۔ ولایت فقیہ کو معصومین علیہم السلام کے تمام اختیارات حاصل ہیں مگر وہ اختیارات جو دلیل خاص کے ذریعہ مستثنیٰ (علیحدہ) قرار دیئے جائیں ۔۲۔ ولایت فقیہ کو معصومین علیہم السلام کے تمام اختیارات حاصل نہیں ہیں اور حکومت کے بنیادی قانون کے دائرے میں بھی نہیں ہے بلکہ یہ پوری حکومت ولی فقیہ کی حقوقی (فقہی اور صاحب تقویٰ) شخصیت کے اختیار میں ہے اور جہاں پر بھی امر ونہی اور اصلاح کرنا ضروری سمجھیں، انھیں مداخلت کرنے کا حق ہے ۔۳۔ ولایت فقیہ حکومت کے بنیادی قانون کے دائرے میں ہے ۔تیسرے نظریہ پر متعدد اشکالات ہیں؛ لیکن اب اس وقت سیاسی میدان میں پہلا اور تیسرا نظریہ رائج ہے، برائے مہربانی منظور نظر معنی اور یہ کہ ان معنی کو دلیلوں سے کیسے حاصل کیا جائے، اس سلسلہ میں وضاحت فرمائیں ۔
نظاہر وہ سب حضرات جھنوں نے ولایت فقیہ کے بارے میں بحث کی ہے، یہاں تک کہ امام خمینیۺ، ان تمام حضرات نے ولایت فقیہ کے لئے مسلمانوں کی مصلحت کی مراعات کرنے کی قید لگائی ہے، یہ کوئی نہیں کہتا: ”اگر مسلمانوں کی مصلحت جنگ میں ہے فقیہ کو صلح کرنے کا حق ہے اور اگر مسلمانوں کی مصلحت، صلح میں ہے فقیہ کو اس کے برخلاف جنگ کرنے کا حکم دینے کا حق ہے“ اصل میں یہ ولایت ، اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی حفاظت کے لئے ہے، اس کے خلاف نہیں ہے، اگر ہم اس اصل کو قبول کرلیں گے تو ولایت فقیہ کے اختیارات کی حد بھی مشخص ہوجائے گی اور مطلقہ سے مراد، وہی اسلام ومسلمین کی مصلحت کے دائرے میں مطلقہ ہے، یہاں تک کہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں بھی مسئلہ کچھ اور نہیں ہے، امام حسن علیہ السلام نے اسلام ومسلمین کی مصلحت کی خاطر صلح کی، اور امام حسین علیہ السلام نے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر جنگ کی اور شہید ہوگئے، خداوندعالم نے حضرت یونس علیہ السلام کو ترک اولیٰ جو اُمّت کی غیر ضروری مصلحتوں سے مربوط ہوتا ہے کی وجہ سے شکم ماہی میں قید کیا، اور اس سے زیادہ تفصیلی گفتگو کرنے کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے ۔
ولی فقیہ کی بحث وگفتگو کے عملی ہونے سے مراد کیا ہے
استفتاء میں جو فتویٰ ولایت فقیہ کے سلسلے میں دریافت کیا گیا ہے، آپ نے اس کے جواب میں فرمایا ہے: ”علمی مسائل میں سے ہے“ (یعنی ولایت فقیہ علمی مسائل میں سے ہے) مسائل علمی سے کیا مراد ہے؟ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ولایت فقیہ ، امامت کی ایک شان اور حصّہ ہے کیا یہ بحث علم کلام یعنی عقائد سے مربوط نہیں ہوتی؟
اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ ولایت فقیہ یعنی فقیہ کے ہاتھ میں حکومت ہونا ہے اور حکومت کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ لوگوں کو ان کے مطابق عمل کرنا چاہیے، لہٰذا ولایت فقیہ عملی پہلو ہوجاتاہے، یہاں تک کہ امام علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں بعض حصّہ عقیدتی پہلو کا حامل ہوتا ہے اور ولایت کا بعض حصّہ (جو حکومت سے مربوط ہوتا ہے) عملی پہلو رکھتا ہے ۔
ولی فقیہ کے اختیارات
جناب عالی کی نظر میں ولاےت کی بابت مجتہد کے اختیار کیسے اور کسقدر ہیں؟مثال کے طور پر آیا مجتہد امّت کے امور زندگی میں دکالت کر سکتا ہے اور کیا اسلامی حکومت پر مجتہد اور فقیہ حاکم ہونا چاہئے یا نہیں ؟
جواب۔کتاب انوار الفقاہة ولاےت فقیہ کی بحث کے ذیل میں ہم نے اس مطلب کی طرف تفصیل سے تحریر کیا ہے۔
غائب شخص کے مال پر ولایت
ولی و سرپرست کے ہونے کی صورت میں غائب شخص کے مال پر ولاےت اور سرپرستی کرنا کس شخص کے ذمّہ ہے؟
جواب۔ ولی کے نہ ہونے کی صورت میں غائب شخص کے مال پر ولاےت حاکم شرع یا جس کو حاکم شرع نے معیّن کیا ہو اس کی ذمّہ داری ہے بلکہ ولی کے ہونے کی صورت میں بھی احتیاط واجب ےہ ہے کہ وہ حاکم شرع سے اجازت حاصل کرے۔
وہ کمپنیاں جو شریک کرنے کی صورت میں رکن بناتی ہیں
حکومتی ادارے کی طرف سے، لوگوں کے درمیان معین رقم کے عوض، ”یتیم خانہ کا تحفہ“ کے عنوان سے فارم فروخت کئے جاتے ہیں، ان میں سے بعض فارموں پر سوالات بھی لکھے ہوتے ہیں کہ جو لوگ ان سوالوں کا صحیح جواب دیں گے، انھیں قرعہ اندازی میں شریک کیا جائے گا اور جن حضرات کا قرعہ میں نام نکلے گا انھیں انعام دیئے جائیں گے، اس کام کے ذمہ دار حضرات کے اظہار کے مطابق، اس کی آمدنی نیک کاموں میں خرچ کی جائے گی، جبکہ فارم خریدنے والے حضرات تین قسم کے ہوتے ہیں:۱۔ بعض حضرات وہ ہیں جو فقط نیک کاموں میں شریک ہونے کی غرض سے مذکورہ قسم کے فارم خریدتے ہیں ۔۲۔ بعض لوگ فقط قرعہ اندازی میں شریک ہونے کے متمنی ہوتے ہیں ۔۳۔ جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خواہ قرعہ اندازی میں ان کا نام آئے یا نہ آئے بہرحال اُن کے لئے کوئی فرق نہیں ہوتا ۔برائے مہربانی اس کام کے ذمہ دار حضرات ، فارم فروخت کرنے والے اور خریداروں کا حکم بیان فرمائیں؟نیز اس ادارے کی طرف سے ، سیلاب زدہ علاقوں کی امداد کے لئے دوسرے ٹکٹ فروخت ہوتے ہورہے ہیں اس میں قرعہ اندازی میں تمام خریداروں کو شریک کیا جائے گا، اس فرق کے ساتھ کہ ان میں کوئی سوال نہیں کیا گیا ہے، بلکہ جتنے لوگ خریدیں گے ان سب کو قرعہ اندازی میں شریک کیا جائے گا، اس قسم کے ٹکٹ کا کیا حکم ہے؟
یہ سب کچھ، پہلے بیان شدہ، مقدر آزمانے کی قسم کا کام ہے اور شریعت کی رو سے حرام ہے؛ مگر یہ کہ سب کے سب خریدار پہلی قسم کے ہوں، یعنی فقط مدد کرنے کی نیت سے ٹکٹ یا فارم خریدیں، لیکن ہمیں معلوم ہے کہ سب لوگ اس طرح کے نہیں ہوتے، بلکہ بہت سے قرعہ اندازی میں شریک ہونے کے ارادے سے ٹکٹ یا فارم خریدتے ہیں اور اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ قرعہ اندازی میں انھیں شریک نہیں کیا جائے گا تو راضی نہیں ہوتے اور نیک کاموں میں سے اس آمدنی کو خرچ کرنے سے مسئلہ کی حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی اور اس میں سوالات لکھنے سے بھی یہ مشکل حل نہیں ہوگی، امید ہے کہ غریب ومحتاجوں کی مدد کرنے کے لئے ایسے طریقے اپنائے جائیں جو احکام شرعیہ کے مناسب ہوتے ہیں کہ معاشرے کی مصلحت اور فائدہ اسی میں ہے ۔
تاش کھیلنے کے متعلق شریعت کا حکم
تفریحی امکانات کی کمی کی وجہ سے تاش کی ایک گڈی لے کر ہم لوگوں نے وقت گذارنے کے لئے خود کو مصروف کرلیا، لیکن تاش کے یہ پتّے کارخانہ کے نگران افسر کے ذریعہ ضبط اور ہمارے اوپر جوئے کا الزام لگ جاتا ہے، تفریحی امکانات کی قلّت اور بوجھل طریقہ سے وقت گذارنے کو ملحوظ رکھتے ہوئے، برائے مہربانی اس مسئلہ کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں، کیاشریعت کی رو سے یہ کام حرام ہے؟ اور حرام ہونے کی صورت میں کیا یہ کام کرنے والوں کو سزا دی جائے گی؟
اس کا جواب گذشتہ مسئلہ کی طرح ہے ۔