صلح کرنے والے کے شرائط
مسئلہ 1842: صلح کرنے والے کو بالغ، عامل ہونا چاہئے مجبور نہ ہو، لا ابالي نہ ہو حاکم شرع (قاضي) نے اس کو اپنے اموال ميں تصرف سے دوکانہ ہو اور واقعي صلح کا قصد رکھتاہو.
مسئلہ 1842: صلح کرنے والے کو بالغ، عامل ہونا چاہئے مجبور نہ ہو، لا ابالي نہ ہو حاکم شرع (قاضي) نے اس کو اپنے اموال ميں تصرف سے دوکانہ ہو اور واقعي صلح کا قصد رکھتاہو.
مسئلہ 1843: جو شخص اپنے مطالبہ ميں کسي چيز کے بدلے ميں يا بغير بدلے کے صلح کرانا چاہے تو وہ اس وقت صحيح ہے جب دوسرا قبول کرے ليکن اپنا مطالبہ يا حق چھوڑنا چاہے تو دوسرے کي رضامندي ضروري نہيں ہے اور يہ بھي صلح کے قسم ہے.
مسئلہ 1844: جو شخص اپنے مطالبہ ميں کسي چيز کے بدلے ميں يا بغير بدلے کے صلح کرانا چاہے تو وہ اس وقت صحيح ہے جب دوسرا قبول کرے ليکن اپنا مطالبہ يا حق چھوڑنا چاہے تو دوسرے کي رضامندي ضروري نہيں ہے اور يہ بھي صلح کے قسم ہے.
مسئلہ 1844:انسان اگر اپنے قرضے کو جانتے ہوئے لا علمي کا اظہار کرے اور قرض خواہ کو معلوم نہ ہو اور وہ اپنے مطالبہ قرض کو اس مقدار سے کم پر صلح کرے تو صحيح نہيں ہے مقروض صلح کئے ہوئي مقدار سے زيادہ کا مقروض رہے گا البتہ قر ض خواہ اپنے قرضہ کي مقدار کو جانتے ہوئے بھي کم پر صلح تو صحيح ہے.
مسئلہ 1845:اگر دو ايسي چيزوں کي اصل ايک ہے اور دونوں کا وزن بھي معلوم ہو ان پر ايکدوسرے سے صلح کرنا چاہيں تو يہ صلح اسي وقت صحيح ہوگي جب سود نہ لازم اتاہو يعني ايک کا وزن دوسرے سے زيادہ نہ ہو اور اگر وزن معلوم نہ ہو بلکہ کم و زيادتي کا احتمال ہو تو صلح کرنے ميں اشکال ہے.
مسئلہ1846:جس کا کسي پر قرض ہو اور ادائيگي قرض کا وقت نہ اياہواور قرض دينے والا اپنے قرضوں کي کچھ مقدار کم کرکے صلح کرے اور باقي قرض کو نقدا وصول کرے تو درست ہے مثلا دس ہزار قرض دے رکھاتھا کہ چھ ماہ کے بعد واپس لوٹانا، اب وقت سے پہلے ايک ہزار روپے سے صرف نظر کرکے قرضدار کي مرضي سے نوہزار نقد لينے پر راضي ہو تو جائزہے.
مسئلہ 1847: صلح کي قرارداد کو دونوں کي رضايت سے ختم کياجاسکتا ہے اس طرح اگر قرارداد کے ضمن ميں کسي ايک کويا دونوں کو معاملہ ختم کرنے کا حق دياگيا ہو تو وہ شخص صلح ختم کرسکتا ہے.
مسئلہ 1848:خريد و فروخت کے احکام ميں ہم نے بيان کياہے کہ گيارہ مواقع پر معاملہ کو ختم کياجاسکتاہے اختيار مجلس، اختيار حيوان اور اختيار تاخير کو چھوڑ کر باقي اٹھ صورتوں ميں صلح کو بھي توڑا جاسکتا ہے.
مسئلہ 1849:اگر صلح ميں حاصل ہوئي چيز عيب دار ہو اور اس کو عيب کي اطلاع نہ رہي ہو تو صلح کو خم کرسکتا ہے ليکن صحيح و معيوب کي قيمت ميں جو فرق ہو اس کا تعلق دونوں کي مرضي پر موقوف ہے.
مسئلہ 1850:کسي ملکيت کے منافع يا خود اپني ذات کے منافع کو کسي کے حوالہ (کسي چيز کے بدلے) کردينے کو اجارہ کہتے ہيں کرايہ پر دينے والے اور کرايہ پر لينے والے دونوں کو بالغ و عاقل ہوناچاہئے اور اپنے قصد و ارادہ سے اس کام کا انجام دينا چاہئے نيز دونوں کو اپنے مال ميں حق تصرف بھي ہوناچاہئے لہذا اس لا ابالي کا اجارہ باطل ہے جس کو اپنے مال پر حق تصرف نہيں ہے اور جور اپنے مال کو بيہودہ کاموں ميں خرچ کرتاہے.
مسئلہ 1850: کسي ملکيت کے منافع يا خود اپني ذات کے منافع کو کسي کے حوالہ (کسي چيز کے بدلے) کردينے کو اجارہ کہتے ہيں کرايہ پر دينے والے اور کرايہ پر لينے والے دونوں کو بالغ و عاقل ہوناچاہئے اور اپنے قصد و ارادہ سے اس کام کا انجام دينا چاہئے نيز دونوں کو اپنے مال ميں حق تصرف بھي ہوناچاہئے لہذا اس لا ابالي کا اجارہ باطل ہے جس کو اپنے مال پر حق تصرف نہيں ہے اور جور اپنے مال کو بيہودہ کاموں ميں خرچ کرتاہے.
مسئلہ 1851: انسان دوسرے کا وکيل بن کر اس کے مال کو کرايہ پردے سکتاہےاسي طرح کسن کا ولي يا سرپرست اس کے مال کو اجارہ پردے سکتا ہے ليکن شرط يہ ہے کہ کم سن کي مصلحت پيش نظر ہو اور احتياط يہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد کے زمانہ کو اجارہ ميں داخل نہ کريں البتہ بغير اس کے کم سن کي مصلحت پيش نظر ہو اور احتياط يہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد کے زمانہ کو اجارہ ميں داخل نہ کريں البتہ بغير اس کے کم سن کي مصلحت وري نہ ہوسکتي ہو تو يہ بھي جائز ہے اور اگر ولي يا سرپرست نہ ہو تو حاکم شرع (قاضي) سے اجازت يعني چاہيئے اور اگر مجتہد عادل يا اس کے نمايند ہ تک دسترس ممکن نہ ہو توکسي ايسے مومن و عادل سے اجازت لي جاسکتي ہے جو کم سن کي مصلحت کا لحاظ رکھے.