زد و کوب کئے ہوئے شخص کا علاج میں بے توجہی کی وجہ سے مرجانا
لڑائی جھگڑے کے دوران ایک آدمی نے دوسرے شخص کو زخمی کردیا، زخم ایسا تھا جو عام طور پر مرنے کا باعث نہیں ہوتا اور ڈاکٹرسے علاج کراکر صحیح ہوجاتا ہے، (مثال کے طور پر اس کی انگلی کا ایک حصّہ کاٹ دیا) لیکن زخمی شخص علاج کرانے کے لئے عمداً ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا ۔(اب یاتو غربت اور علاج کیلئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے یا بے توجہی اور لاپرواہی کی بناپر یا پھر لجاجت کی وجہ سے علاج نہیں کراتا) بہر حال زخم بڑھ جاتا ہے، سیپٹک ہوجاتا ہے جو بدن کے دوسرے حصوں تک سرایت کرجاتا ہے اور آخر کار اس کے مرنے کا باعث ہوجاتا ہے، مسئلہ کے فرض میں کیا مارنے والا، قتل عمد کا مرتکب ہوا ہے اور اس کا قصاص ہونا چاہیے یا یہ کہ چونکہ قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا، قتل شبہ عمد ہے، یا اصل میں قتل اس سے منسوب ہی نہیں ہے یعنی وہ قاتل ہے ہی نہیں بلکہ فقط زخم لگانے کی وجہ سے اس کے اوپر قصاص یا دیت دینے کا حکم جاری ہوگا؟
مسئلہ کے فرض میں، مارنے والا شخص عمد کی صورت میں قصاص اور غیر عمد کی صورت میں، اس عضو کی دیت سے زیادہ کس دوسری چیز کا ضامن نہیں ہے ۔
کٹے ہوئے عضو بدن کو دوبارہ لگانے کی صورت میں قصاص
اگر کوئی آدمی کسی کا ہاتھ یا انگلی، عمداً کاٹ دے اور زخمی شخص فوراً خود کو اسپتال وغیرہ میں پہونچادے اور کٹے ہوئے حصّہ کو دوبارہ اس کی جگہ لگوالے اور ٹھیک بھی ہوجائے کیا تب بھی زخمی ہونے والے شخص کو، فریق مقابل کا قصاص کرنے کا حق ہوتا ہے؟
قصاص کا حق ہے لیکن دوسرے شخص کو بھی دوبارہ انگلی لگوانے اور علاج کروانے کا حق ہوگا ۔
حق قصاص کا مرکب ہونا
کیا قصاص، انحلالی اور مرکب حق ہوتا ہے یا غیر انحلال اور بسیط ہوتا ہے؟
مقتول کے ولی سب مل کر ایک ساتھ قصاص کا اقدام کریں یا اس کام کے لئے کسی کو وکیل بنالیں اور اگر ان (اولیاء مقتول) میں سے کوئی تنہا اور دوسروں کی اجازت کے بغیر، قصاص کرے، تو اس نے حرام کام کیا ہے اور اس کو دوسروں کا حق (دیت) ادا کرنا چاہیے ۔
اولیاء دم کا قصاص سے دیت کی طرف پلٹ جانا
اگر اولیاء دم قصاص کا تقاضا کریں کیا حکم جاری ہونے سے پہلے فقط معاف کرسکتے ہیں؟ یا دیت کے مطالبہ کا بھی امکان ہے؟ کیا اس حالت میں قاتل سے مصالحہ کرکے دیت سے زیادہ کوئی چیز طلب کی جاسکتی ہے؟
قصاص کو قاتل کی رضایت سے ہر چیز سے بدلا جاسکتا ہے لیکن انصاف کی رعایت کرنا ہر حال میں اچھا ہے۔
قصاص (پھانسی) کے بعد قاتل کا زندہ ہوجانا
چنانچہ کسی شخص کو قصاص کے طور پر سزائے موت ہوجائے اور وہ شخص قصاص کے عنوان سے پھانسی کے تختہ پر چڑھا دیا جائے اور قانونی ڈاکٹر گواہی دیدے کہ مرگیا ہے لیکن برف خانہ میں جاکر ہوش میں آجائے اور زندہ ہوجائے:الف)کیا قصاص کا حکم اپنی جگہ پر باقی ہے یا ساقط ہوجائے گا؟ب) اگر قصاص کا حکم اپنی جگہ پر باقی ہو تو کیا اسے (مجرم کو) پھانسی دینے کی دیت، دی جائے گی؟ج) دیت ادا کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟د) دیت ادا کرنے کی مدّت کیاہے؟
الف) قصاص کا حکم اپنی جگہ پر باقی ہے اور مقتول کے وارث، اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں ۔ب و ج) اگر زخم یا کسی عضو میں نقص یا گوئی دوسرا نقص پیدا ہوجائے تب احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے ۔البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ جب قاضی اور اس کے ملازموں کے ذریعہ، پھانسی کے حکم پر عمل در آمد کیا جائے اور حکم کو جاری کرنے میں عمداً کوتاہی نہ کی گئی ہو۔د) تمام دیتوں کی طرح ہے ۔
قاتل کے قصاص کیلئے ولی امر کی اجازت
کیا قاتل کا قصاص کرنے کے لئے، ولی فقیہ یا اس کے نمائندے کی اجازت ضروری ہوتی ہے؟ او راگر اجازت نہ دی جائے تو اس صورت میں قاتل کا کیا وظیفہ ہے کیا اجازت ملنے تک خواہ دسیوں سال گذر جائیں قید میں رہے یا یہ کہ فوراً رہا ہوجائے گا، دوسری (رہائی کی) صورت میں کس قسم کی ضمانت لینا چاہیے؟
ولی فقیہ کی اجازت لازم نہیں ہے، قاضی کا حکم کافی ہے اور اگر قاضی تک دسترسی نہ ہو تو حاکم شرع کے بجائے ، عادل مومنین اجازت دے سکتے ہیں اور اگر حاکم شرع نے اجازت دیدی لیکن مقتول کے وارث اور اولیاء راضی نہ ہوئے تب ان سے اتمام حجّت کیا جائے گا کہ یا تو قصاص کریں یا بھر قاتل کے راضی ہونے کی صورت میں، دیت وصول کرلیں، اور اگر دونوں باتوں میں سے کسی پر بھی راضی نہ ہوئے تب کافی حد تک ضمانت لیکر اس وقت تک کے لئے قاتل کو رہا کیا جاسکتا ہے جب تک کہ اس کی صورت حال واضح ہو۔
حاکم کا قصاص کے جاری کرنے کے حکم کو جاری نہ کرنا
حاکم کا قصاص کا اذن نہ دینے کی صورت میں ، جانی (قاتل) کی کیا تکلیف ہے؟
حاکم کو حق نہیں کہ وہ اذن قصاص نہ دے؛ مگر یہ کہ کوئی مہم اجتماعی مفاسد اس کے اوپر مترتب ہوں، لہٰذا قصاص سے خوداری کرنا چاہیے۔
قاتل ہونے کے گمان میں قصاص کرنا
ایک شخص، کلاشنکوف کے ذریعہ چلائی گئی دوگولیوں کے ذریعہ، قتل ہوگیا ہے ۔ قتل کا الزام چار لوگوں پر ہے، جس میں تین، جو اس وقت فرار ہیں، کے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھی اور چوتھے آدمی کے ہاتھ میں جو گرفتارہوگیا ہے، برنو اسلحہ تھا، اس صفت کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا مقتول کے اولیاء و وارث، گرفتارہونے والے اس چوتھے آدمی کا قصاص کرسکتے ہیں اور کلی طور پر واقعہ کس حکم کے تابع ہے؟
جب تک شرعی قوانین کے مطابق، اس کا قاتل ہونا ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک قصاص کرنے کا حق نہیں ہے ۔
حاکم اور ولی کے اذن کے بغیر قصاص کو جاری کرنا
چنانچہ تیسرا شخص (ولی دم کے علاوہ) مستحق قصاص کو بغیر حاکم کے اذن کے اور ایسے ہی بغیر ولی دم کی اجازت کے قتل کردے لیکن پھر پہلا ولی دم اعلان رضایت کردے تو کیا حکم ہے؟
مسئلہ شبہہ کے مورد میں سے ہے ، قاعدہ درء کو شامل ہوتا ہے۔